دعا

سجدے کی اگر توفیق ملے تو اسے لمبا کرو۔۔۔ مصیبت سجدے والے کی کمر پر ٹِک نہیں سکتی۔

کچھ یادیں ماضی کے جھروکوں سے

مجھے قدیم اور تاریخی چیزیں ہوں یا عمارتیں بہت لگائو ہے
جب یہ خط میرے ہاتھ میں آیا تو کافی دیر تک میں دیکھتا ہی رہا
اور مجھے خو نہیں یاد کہ میں نے کتنی بار پڑھا
آپ اس خط میں اردو کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں کہ کتنی شائستگی کے ساتھ اپنا مدعا بیان کیا گیا ہے۔
اردو واقعی ایک ایسی زبان ہے کہ جس سے چاشنی ٹپکتی ہے بشرط یہ کہ اردو بولی جائے۔
فی زمانہ ہمارے یہاں جو اردو رائج ہے بہت افسوس کی بات ہے کہ اس میں مغرب اور پڑوسی ملک کے بے تحاشہ الفاظ کی ملاوٹ ہو چکی ہے۔
اور ہم ذہنی طور پر اتنے غلام ہو چکے ہیں کہ ہمارے حکومتی حکم نامے ہوں یا عدالتی فیصلے سب انگریزی کی نظر ہو چکے ہیں۔
اور اس پر ستم یہ کہ ہم نے انگریزی بولنے کو شخصیت پرکھنے کا معیار بنا لیا ہے جو جتنی انگریزی بولے گا اس کو اتنی ہی عزت دی جائے گی افسوس صد افسوس۔۔۔۔
میرا چائنہ جانا ہوا تو آپ یقین نہیں کریں گے کہ میں نے ایک کیفے میں چائے لی اور میں جتنی دیر میں اس کو یہ سمجھا سکا کہ مجھے چینی چاہیئے جب تک چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی اس میں بات یہ سمجھنے والی ہے کہ وہ قوم اپنی زبان سے اتنی وفادار ہے کہ وہ کچھ اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں بولنا تو دور کی بات ہے۔
خدارا اپنی زبان سے محبت کرو اور اس کو رائج کرو ورنہ ہمارا حال بھی پڑوسی ملک کی طرح ہو جائے گا جن کی اب اپنی زبان تقریبا موت کے دہانے پر کھڑی ہے جو کہ اب اردو، ہندی اور انگریزی کا مرکب بن چکی ہے۔
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
جو لوگ گزر گئے، جو وقت گزر گیا واپس تو نہیں آسکتا لیکن ان کی چھوڑی ہوئی یادیں دیکھ کر ان کی چیزوں کے ذریعے سے میں بھی تخیلاتی طور پر اس ہی زمانے میں پہنچ جاتا ہوں۔
اظہر حمزہ علی

The Author

Azhar Hamza Ali

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے