نام محمد ﷺ ایسا نام ہے جو کہ سننے میں بہت پیارا اور میٹھا لگتا ہے اس نام نامی کی اتنی خصوصیات ہیں کہ لکھنے بیٹھو تو زندگی تمام ہو جائیں لیکن اس پیارے نام کے خصائص ختم نہ ہوں۔
ایک یہ واحد نام ہے جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ "جس کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہو”
نام محمد ﷺ میں بہت برکات بھی ہیں اور بہت حلاوت بھی
کبھی آپ تنہائی میں ہوں اور افسردہ ہوں تو ذرا اس نام کو بار بار دہرا کر دیکھو کہ کیسی تسکین اور قلب کو اطمینان ملے گا۔
جہاں اللہ کریم نے اس نام مبارک میں اتنی تاثیر رکھی ہے وہیں اس نام میں حلاوت بھی بے پناہ رکھی ہے۔
اس پیارے اور میٹھے نام کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جب آپ اس نام کی ادائیگی کریں گے تو لب ایک دوسرے کو چوم لیتے ہیں۔
اس روئے زمین پر سب سے زیادہ رکھا جانے والا اور پکارا جانے والا بھی نام بھی نام محمد ہے۔
اور بے شک جب میرے رب نے اپنے پاک کلام میں جا بجا ہمارے کریم آقا اور اپنے پیارے محبوب محمد ﷺ کی تعریفیں بیان کی ہیں جیسے ہم اپنے بچوں کو پیار اور لاڈ میں میرے لعل، میرے چاند، جیسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں ایسے ہی میرے رب نے اپنے محبوب کو پیار سے کئی ناموں سے مخاطب کیا جیسے روءف، رحیم، کریم، بشیر، نذیر یہ سب میرے آقا ﷺ کے صفاتی نام ہیں لیکن ذاتی نام محمد ﷺ کہ جس کی بے حد تعریف کی گئی ہو۔
مشرکین مکہ جو آپ ﷺ کے خون کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ کو جب پکارتے تو انہیں مجبوراً ’’محمدﷺ ‘‘ کہنا پڑتا ۔ ایک مرتبہ انہوں نے مشورہ کیا کہ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ ہم تو اپنے بتوں کے دشمن کو برا بھلاکہنا چاہتے ہیں لیکن جب بلاتے ہیں تو خود بخود ان کی تعریف ہوجاتی ہے۔ کچھ بدبختوں کے مشورے سے طے پایا کہ آئندہ ہم محمدؐ کے بجائے (نعوذباللہ) ’’مذمم‘‘ (جس کی مذمت کی گئی ہو) کہا کریں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ سنا تو ان کو بہت صدمہ پہنچا۔ مکہ میں مشکلات اور آزمائشوں کا دور تھا۔ صحابہ رحمتِ عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوری بات بتائی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ کیا تم حیران نہیں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے قریش کے سبّ وشتم سے کیسے محفوظ رکھا ہے؟ وہ لوگ تو مذمم کو برا بھلا کہتے ہیں جب کہ میرا نام تو محمدؐ ہے۔‘‘(بخاری)
اب کوئی جتنا بھی چونکہ چنانچہ کرتا رہے جس نام نامی کا ذکر میرے رب نے بلند کردیا اس پاک نام کو تو مشرکین مکہ بھی خراب نہیں کرسکے تو آج کے دور کے جتنے بھی ابو جہل ہیں ان کی کیا اوقات کہ وہ اس پیارے نام نامی بے ادبی بھی کرسکیں۔
تحریر: اظھر حمزہ علی
